تذکرہ ایک ظالم عورت کا: میں نے باتوں ہی باتوں میں بڑھئی سے ظالم خواتین کا تذکرہ پوچھا ایک تو اس نے ظالم ساس کا بتایا جو میں نے آپ قارئین کو گزشتہ چند اقساط پہلے بتا دیا‘ دوسرا ایک ایسی ظالم عورت کا قصہ بتایا جسے سن کر میں خود دہل گیا اور میرا ذہن میری عقل حتیٰ کہ میری پلکیں اور طبیعت میں اتنی زیادہ بے چینی شروع ہوئی کہ میرے گمان سے بالاتر۔ جرأت کرتے ہوئے میں نے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس کا تذکرہ کچھ یوں ہے وہ ایسی عورت تھی جو نماز پڑھنے والی‘ تسبیح کرنے والی‘ روزے رکھنے والی تھی لیکن اس کی زبان سے آج تک کوئی شخص محفوظ نہیں رہا تھا اس کی بدزبانی نے کئی گھروں کو آگ لگائی‘ کئی خاندانوں کو اجاڑا اور کئی دلوں کو ویران کیا۔ غیبت کرنا، دوسروں کی نقلیں اتارنا‘ ایک کی بات دوسرے تک پہنچانا، بعض اوقات منہ پر بہت تعریف کرتی تھی لیکن پیٹھ پیچھے وہ لوگوں کو ذلیل و رسوا کرتی تھی لوگوں کےپردہ دری کرتی‘ ان کےراز افشا کرتی اور ان کو موقع بہ موقع پریشان کرتی رہتی تھی ۔اس عورت کے پاس زیادتی کرنے کا جو ایک طریقہ تھا وہ صرف اور صرف زبان تھی۔ جھوٹ، غیبت اور تیززبانی اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھی وہ اس کو ایک نارمل حیثیت سےلیتی تھی اور اس کا من اس کا دل آج تک اس پر نادم نہیں ہوا تھا۔ اگر کوئی اس سے کہہ دیتا کہ تم یہ کیا کررہی ہو تو وہ کہتی میں حق بیان کررہی ہوں۔ ظالم عورت کی قبر پر عجب وحشت:بوڑھا بڑھئی خود یہ بات کہتے ہوئے ایک دم رک گیا اور اس کے رکتے ہی ایک انوکھا سناٹا چھا گیا اور وہ سناٹا کیا تھا‘ ایک انوکھا منظر تھا‘ قبرستان میں ہرطرف جنات ہی جنات‘ روحوں کا ایک انوکھا نظام جن میں جنتی روحیں بھی اور رب معاف کرے دوزخی روحیں بھی، ایک طرف بوڑھے بڑھئی کا اس ظالم عورت کا منظر کھینچنا اور اس کی سچی کیفیت بتانا، اب میں اس کا انتظار کررہا کہ یہ بول کیوں نہیںرہا؟ تھوڑی ہی دیر ہوئی وہ بوڑھا بڑھئی اٹھا اور مجھے کہا میرے ساتھ چلیں ‘آئیں میں آپ کواس ظالم عورت کی قبر پر لے چلتا ہوں۔ جب میں اس کی قبر پر گیا تو ایک بہت بڑا خوبصورت قیمتی پتھر سے بناکتبہ اور تمام قبر بھی قیمتی پتھر سے بنی اس کے اوپر پھول رکھے ہوئے تھے جو کہ مرجھا گئے تھے۔ بوڑھے بڑھئی نے مجھے اس قبر پر لاکھڑا کیا اور پھر نہایت غمناک آواز سے بولا یہ اس ظالم عورت کی قبر ہے جو روزے بھی رکھتی تھی‘ نمازیں بھی پڑھتی تھی اور بعض اوقات تسبیح بھی کرتی تھی لیکن اس کی زبان نے لوگوں کےکلیجے چیر اور جلا کے رکھ دئیے‘ اس کی طبیعت میں ہروقت لوگوں کیلئے نفرت اور بغض بھرا ہوا تھا اوریہ عورت ہر کسی کو اپنا دشمن سمجھتی تھی ‘وہ لوگوں کے عیب فاش کرکے مزے لیتی تھی اس کی طبیعت میں ہرکسی کیلئے نفرت اکتاہٹ بے چینی اور بے قراری تھی، نامعلوم اس کے اندر یہ کیفیت کیسےآئی؟
لوگوں کے عیب فاش کرنے والی پر عجیب عذاب:ہم یہی باتیں کرہی رہے تھے ایک ایسی آواز آئی جیسے کپڑے کو پھاڑتے ہیں میں اس آواز پر چونک پڑا۔ میرے چونکنے پر بوڑھے بڑھئی نے کہا یہ ایک خاص آواز ہے جو میت کے اوپر ایک عذاب مسلط ہو تو یہ آواز اسی وقت پیدا ہوتی ہے اور یہ آواز ہراس میت کے اندر ہوتی ہے جس نے لوگوں کو زبان سےتکلیف دی ہو،یہ عذاب ہرپل میت پر مسلط رہتا ہے‘ اس عذاب سے مریض کے پورے بدن پر ہلکی ہلکی چنگاریاں لگتی ہیں پھر اس کے بدن میں جلن ہوتی ہے اور پھر اس کی جلن کےساتھ ساتھ اس کے جسم سے گرم پسینہ نکلتا ہے اس گرم پسینے سے قبر کی مٹی بھیگ جاتی ہے اور بھیگنے کے بعد وہ گرم پسینہ اتنا ہوتا ہے کہ ا س زمین سے بھاپ نکلناشروع ہوجاتی ہےاور اس بھاپ کے ذریعےاس میت کو اور تکلیف پہنچتی ہے اور اس کا تن بدن آگ میں جلنا شروع ہوجاتا ہے۔ جب یہ عذاب آتا ہے تو اس عذاب کے ذریعے نہایت تکلیف اور بہت زیادہ پریشانی پیدا ہوتی ہے اس تکلیف سے یہ آواز پیدا ہوتی ہے جس کو بظاہر ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے کپڑا پھاڑنے کی آواز۔ عجب مشغلے نے دنیا وآخرت میں کہیں کا نہ چھوڑا:بوڑھا بڑھئی اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے بولا، اس نے زندگی میں بس ایک مشغلہ اپنایا ہوا تھا اور وہ مشغلہ صرف یہی تھا کہ لوگوں کے پردےکھولنا اگر کسی کے اندر کوئی عیب ہے تو اس عیب کو لوگوں کے سامنے کھولنا اور کسی کے اندر کوئی تکلیف ہے بجائے اس کے کہ اس کی تکلیف کا ازالہ کرے لوگوں کے سامنے بار بار اس کو بیان کرنا‘ لوگوں کو ذلیل کرنا ‘رسوا کرنا۔ یہ عورت ایک اور تکلیف دیتی تھی کہ کسی کے گھراگر کوئی میاں بیوی کا جھگڑا ہے تو وہ اس جھگڑے کو زمانے اور معاشرے میں ہوا دیتی تھی۔ مرنے سے پہلے بھی انوکھے عذاب میں مبتلا: بوڑھا بڑھئی ایک لمبی سانس بھر کے بولا مرنے سے پہلے بھی وہ ایک انوکھے عذاب میں مبتلا رہی‘ اس کے گھر میں غربت، تنگدستی، فقر و فاقہ آیا اور یہ قبر پکی، اس کے گھر والوں نے نہیں بنائی بلکہ اس کا ایک پوتا مالدار تھا لیکن اب وہ بھی اسی کی بھینٹ چڑھ کے غربت کی تنہائیوں میں اور غربت کے کنویں میں گرچکا ہے اس کا گھر ایسا جلا کہ شایدہی اس کی زبان نے کسی کا گھر ایسےجلایا ہو جس طرح اس کا گھر جلا اور اس کے گھر میں آفتیں بیماریوں کی، مصیبتوں کی، پریشانیوں کی، الجھنوں کی اور ناکامیوں کی آئیں اور ایسی ناکامی آئی کہ اس کا بچہ بچہ اس ناکامی میں ڈوب گیا۔ ان کے ہرکام میں رکاوٹ ہے ان کی زندگی کے ہر کام میں بندش ہے‘ چار قدم آگے اٹھاتے ہیں چالیس قدم پیچھے گرتے ہیں۔ لوگوں سے شکوہ کرتےہیں ان کی بےوفائی کا جبکہ انہوں نے کتنے لوگوں کا گھر برباد کیا۔ اے کاش وہ خاتون ایسا نہ کرتی: بوڑھے بڑھئی کی بات سنتےہوئے اندر ہی اندر سوچ رہا تھا کہ اے کاش !وہ خاتون ایسا نہ کرتی پھر بڑوں کی بات میرے دل میں اچانک آئی کہ کرے کون اور بھرے کون؟ اس عورت نے اپنی ساری زندگی لوگوںکو اپنی زبان سے زخم لگاتے لگاتے گزاری ‘آج اس کے زخم کا انجام یہی ہے کہ ساری انسانیت اور ساری مخلوق شاید سکون میں ہوگی لیکن وہ اور اس کا گھرانہ دکھوں‘ مصیبتوں اور پریشانیوں میں گھرا ہوا ہے اور یہ دکھ ‘تکلیف‘ مصیبتیں اور پریشانیاں اس کا مقدر بن گئیں۔37 دن تک نزع کی حالت: بوڑھا بڑھئی کہنے لگا کہ اس کی موت کا لمحہ بہت دردناک اور خطرناک تھا‘ اس خاتون کو موت بہت دردناک انداز میں آئی پورے 37 دن یہ نزع کی حالت میں رہی حتیٰ کہ گھر والوں نے یہ طے کیا کہ اس کو زہر کا انجکشن لگایا جائے لیکن پھر وہ ایسا نہ کرسکے‘ یہ مرتی نہیں تھی‘ سانس اٹکی ہوئی تھی‘ پیشاب پاخانہ نکل رہا تھا پھر کچھ عرصہ کے بعد پیشاب پاخانہ نہیں اندر تو کچھ جاہی نہیں رہا تھا اس کی آنکھیں ابلی ہوئی تھیں‘ منہ کھلا ہوا تھا‘ اس کے منہ سےبدبو آرہی تھی‘ سانس اور سانسوں کی خرخراہٹ ایک خوفناک شکل اختیار کرگئی تھی خود گھر والے پریشان تھے‘ اس کو نہلاتے تھے لیکن پھر کپڑوں سے بدبو آنا اور جسم سے بدبو آنا اور سانسوں سے بدبو آنا شروع ہوجاتی تھی‘ اس کا سارا خاندان اس سے بے زار تھا‘ بس ان37 دنوں میں ایک دفعہ اس کو تھوڑی دیر کیلئے ہوش آیا اور اس نے پانی مانگا‘ گھر والے خوش ہوگئے کہ شاید ٹھیک ہوگئی ہے اور پانی کے چندگھونٹ پیے اور کہنے لگی کہ کچھ لوگ ہیں جو میرے جسم کے ہر حصے میں بہت بڑی بڑی سوئیاں چبھو رہے ہیں
ان لوگوں سے مجھے چھڑواؤ۔ اس وقت بے شمار سوئیاں میری زبان میں ہیں یہ ا س لیے ہے کہ میں نے ساری زندگی لوگوں کو زبان کےذریعے بہت تکلیف پہنچائی۔ پھر ہائے ہائے کرتےواپس یہ بے ہوشی میں چلی گئی۔ 37 دن کے بعد اس کو موت آئی ۔قبر بنتی اور بیٹھ جاتی: بس فوراً جلدی جلدی اس کو دفن کیا اور جتنے لوگ موجود تھے تھوڑے سے لوگوں نے جنازہ پڑھا اور اس کو قبر میں دفن کیا جب قبر میں دفن کیا تو قبر اندر گرگئی انہوں نے گورکن کو کوسنا شروع کیا کہ تو نے پیسے تو پورے لیے لیکن قبر کمزور بنائی ‘اس نے پھر قبر کھودی میت کوباہر نکالاا ور دوسری قبربنائی لیکن دوسری قبر میں جب یہ جانے لگی تو ایک دم قبر میں دراڑ آئی اور قبر کی سر کی سائیڈکا پوراحصہ بیٹھ گیا اب یہ سمجھ گئے کہ یہ نظام کوئی اور ہے لہٰذا انہوں نے جس سائیڈ کی قبربیٹھی تھی اس طرف مٹی ڈال کر قبر کو پھر برابر کردیا۔ بوڑھا بڑھئی اپنی باتیں مسلسل کیے جارہا تھا‘ میرے جسم میں سنسناہٹ‘ گھبراہٹ‘ بے چینی اور دکھ اور تکلیف کی انوکھی کیفیت تھی۔ میں مسلسل گھونٹ گھونٹ پانی پی رہا تھا‘ میرا حلق خشک ہورہا تھا۔قبرستان کا سناٹا‘ اندھیری رات اور عذاب کی آواز: قبرستان کا سناٹا‘ تاریک اندھیری رات اور جس کی قبر پر عذاب ابھی بھی کپڑے کے آواز کے پھاڑنے والا ہورہا اور پھر اس کا مستقل تذکرہ ہورہاتھا۔ قارئین! آپ سوچ نہیں سکتے یہ واقعہ کیا ہے اور اس کا تذکرہ کیا ہے میں آپ کو نہیں بتاسکتا۔ میرا جی چاہتا تھا کہ بوڑھا بڑھئی اب خاموش ہوجائے اور میں اس کی مزید بات نہ سن سکوں لیکن میں اس کی بات سننے پرمجبور تھا۔زبان کی بے احتیاطی سے احتیاط کر: وہ مجھےمسلسل اپنی بات سننے پر مجبور کررہا تھا میں اٹھ نہیں سکتا تھا کوئی طاقت تھی جو مجھے روکے ہوئے تھی۔ زمین نے نامعلوم مجھے کیسے پکڑا ہوا تھا اور زمین جیسے اپنے لفظوں میں پکار رہی ہو کہ سن اس کاتذکرہ اور زبان کی بے احتیاطی سے احتیاط کر ورنہ لوگوں میں تیری زبان کی تیزی اور حاضر جوابی کا تذکرہ تو ہوجائےگا شاید بہت سے لوگ تیری حاضر جوابی سے ڈریں گے بھی سہی لیکن سچ یہی ہے حقیقت یہی ہے کہ بری زبان کے تذکرے اور ایسے تذکرے جو لوگوں کے دلوں میں زخم اور گھاؤ لگادیں اور ایسے تذکرے جس سے گھر ٹوٹ جائیں‘ دل بکھر جائیں‘ طبیعتیں بپھر جائیں اور ذہن منتشر ہوجائے۔ آپس میں سلوک ختم ہوجائے‘ صلہ رحمی کے دروازے بند ہوجائیں اور تیرے بولوں سے قطع رحمی رواج میں آجائے۔ حالات واقعات اورطبیعتوں میں نفرتیں بھرجائیں۔ بس یہی قیامت ہے: میں اپنی سوچوں میں ڈوبا ہوا تھا کہ بوڑھے بڑھئی کی آواز نے مجھے ایک بار پھر چونکا دیا اور کہنے لگا کہ دراصل قبرستان میں آکر پچھلے بھول جاتے ہیں ایک وقت آتا ہے وہ تذکرہ بھی نہیں کرتے لیکن حقیقت یہی ہوتی ہے کہ قبرستان ایک حقیقت کا جہان ہے‘ ایک سچا نظام ہے‘ ایک سچی زندگی ہے اور یہ جزا و سزا کا نظام بس قیامت ہے‘ قیامت یہیں سے شروع ہوجاتی ہے بلکہ قیامت تو اس وقت سے شروع ہوجاتی ہے جس وقت انسان کا سانس نکلتا ہے‘ چاہے اس کو جلا دیا جائے یا دبادیا جائے یا سمندر کی مچھلیوں کی غذا بنادیا۔ اس کیلئے اسی وقت قیامت شروع ہوجاتی ہے۔ بوڑھا بڑھئی اپنی درد بھری باتیں کیے جارہا تھا۔ میں سن رہا تھا اور میرا دماغ گھومنے لگا‘ میری طبیعت بے تابی اور پریشانی کی طرف مائل ہونے لگی۔ وہ کہنے لگا: قبر کی پہلی رات اس کی بہت مشکل تھی اور اب قبر کی ہر رات اس کی نہایت گھٹن ہے‘ اس کے رشتے دار اس کو بھول گئے ہیں کیونکہ اس کی کیفیت ایسی تھی کہ اس نے کسی کو معاف نہیں کیا تھا حتیٰ کہ یہ وہ عورت تھی جب یہ اپنی زندگی کی بہاریں دیکھ رہی تھی اس کی بوڑھی ماں زندہ تھی‘ یہ اپنی ماں کو ہروقت اپنی زبان سےذلیل کرتی اور رسوا کرتی تھی اور اس کی ماں آہیں بھرتی تھی‘ اس نے ماں کی بہت بددعائیں لیں‘ یہ ماں کو اس کی زندگی کےطعنے دیتی تھی‘ یہ ماں کے قدموں ‘سوچوں اور اس کی زندگی کے بیتے لمحات کو یاد دلا دلا کر نفرت کا ماحول پیدا کرتی تھی۔ اے کاش! یہ نہ کرتی۔ قبر کی ویرانی‘ دوستوں سے جدائی سہیلیوں سے علیحدہ پن: اےکاش اس کے دل میں احساس پیدا ہوجاتا اس کی قبر کی ویرانی، دوستوں سے جدائی، سہیلیوں سےعلیحدہ پن، زمانےکی بہاریں، یہ ساری چیزیں اس سے لٹ گئیں‘ آج یہ اپنی تنہائیوں ویرانیوں اور بے تابیوں میں بالکل جدا ہے۔ کوئی اس کا حال پوچھنے نہیں آتا کوئی اس کے دل کی کیفیت سننے نہیں آتا‘ کوئی اس کا غم بانٹنےنہیں آتا کوئی اس کو درد سے چھروانے نہیں آتا۔اے کاش۔۔۔!!!: اےکاش! یہ صبر کرلیتی یہ لوگوں سےدرگزر کرتی یہ لوگوں کی پردہ پوشی کرتی یہ لوگوں کا راز رکھتی یہ لوگوں کا بھرم رکھتی۔یہ لوگوں کو تسلیاں دیتی‘ لوگوں کو پریشان نہ کرتی بلکہ مسلمان کو دل سے چاہتی ان سے نفرت نہ کرتی ‘یہ سب کو اپنا دوست سمجھتی اور کسی کو اپنا دشمن نہ سمجھتی ۔یہ اپنی سوچوں کو مثبت رکھتی ‘منفی نہ رکھتی ‘عیب تو ہرکسی میں ہوتے ہیں یہ لوگوں کو ان کےعیبوں سمیت قبول کرلیتی اور یہ کہہ لیتی کہ آخر یہ بھی تو ہمارے پیارے نبی ﷺ کی امت ہیں‘ میں نبی ﷺ کی امت سے نفرت کرکےزمانے میںکیوں آگ لگاؤں‘ میں نبیﷺ کی امت کے عیب چھپالوں لوگوں کے سامنے بیان نہ کروں۔ اے کاش یہ ماں بن جاتی اور سچی ماں ہوتی اور سچی ماں اسےکہتے ہیں جو اولاد کے پردے دیتی ہے اولاد کے عیب چھپاتی ہے اور اپنی نسلوں کو سچا پیار دے کر ان کو سچی زندگی کی طرف مائل کرتی ہے نہ کہ ان کے عیبوں پر انہیں عار دلاتی ہے اور انہیں شرمندہ نہیں کرتی۔میں بڑھئی کی باتیں سن رہا تھااور حسرت بھری نظروں سے اس قبر کو دیکھ رہا تھا جوبہت اچھے پتھر کی بنی ہوئی تھی اور اس پرمرجھائےہوئے پھول تھے وہ بظاہر بہت خوبصورت قبر تھی اس قبر کو دیکھنے والاہر بندہ ٹھہر جاتا ہوگا اور اس کی نظر وہیں خاموش ہوجاتی ہو گی لیکن دیکھنے والےکو یہ پتہ نہیں کہ اندر اس کے ساتھ کیا بیت رہی۔ میں نے جان بوجھ کر بوڑھے بڑھئی سے آج کی نشست کی اجازت چاہی ‘ انہوں نے مجھے روکا‘ میرے دل کی کیفیت کو وہ بوجھ چکے تھے اور پڑھ چکے تھے۔ مجھ سےکہنے لگےمجھے علم ہے آپ یہ گفتگو اپنے تک نہیں رکھیں گے اس کو عام کریںگے‘ بس میرا یہ پیغام لوگوں کو پہنچادیں مظلوم ہوکر اس قبرکے جہان میں آنا ظالم ہوکر نہ ا ٓنا ضرور ی نہیں سب کو سب کی باتوں کا سوفیصد جواب دیا جائے بس درگزر کرنا، معاف کرنا، پردے ڈالنا، عطا کرنا، بخشش کرنا اور لوگوں کودینا سیکھیں لوگوں سے لینے کی کوئی توقع نہ رکھیں پھر بھی اگر کوئی شخص تمہیں برا کہتا ہے رسواذلیل کرتاہے اس کے معاملات اس کے رب پر چھوڑ دیں‘ اس کےساتھ اچھا اور اچھائی کا معاملہ کرتے رہیں۔ میں بوڑھے بڑھئی کی بہشتی روح کوچھوڑ کر بوجھل قدموں کےساتھ قبرستان سےواپس ہوامیرے پاؤں نہیں اٹھ رہے تھے میرا جسم ساتھ نہیں دے رہا تھا میں ایک جگہ قبرستان کے احاطے کے راستے میں دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا‘میرا جی میرا من اور میری طبیعت چاہ رہی تھی کہ بس میں یہیں بیٹھا رہوں میں اور اب کہیں نہ جاؤں کیوں؟ میرا جسم میرا ساتھ نہیں دے رہا تھا لیکن میں کیا کرتا؟ میں کیا کرتا آخر مجھے واپس آنا تھا۔ میرےقارئین! میرے لیے دعا کریں اور اپنے لیے دعا کریں۔ بس! آج کا یہ کالم میں بے بسی کے قلم اور ٹوٹے پھوٹے لفظوں کے ساتھ لکھ رہا ہوں۔ (جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں